اس تحقیقی پراجیکٹ کا موزوںپاکستانی بنگالی۔ برادری ہے۔ یہ پراجیکٹ ان کی تاریج کا تجزیہ کر کے یہ بھی سوال اٹھائے گا کے وہ آج کل اپنے روزمرہ کی زندگی میں اپنی پاکستانی اور بنگالی ہونے کی شناخت کو کیسے تولتے ہیں۔ ہم اپنی تمام تر توجہ ان بنگالی مہاجرین پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں جو ۱۹۷۱ میں بنگلادیش کی تشکیل کے بعد پاکستان (اس وقت جسے مغربی پاکستان کہا جاتا تھا) کی طرف روانہ ہوئے۔ اب ان کی کم ازکم دو نسلیں پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کے مختلف اقتصادی شعبوں میں ان کے تعاون کے باوجود وہ پاکستانی شناخت و شہریت سے محروم ہیں۔ شناختی کارڈ اور شہریت کے بغیر ان کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس وجہ سے وہ سماجی اور ثقافتی لحاظ سے فرق تصور کیے جاتے ہیں۔
اس پراجیکٹ کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان میں بنگالی برادری کی تعداد ۲۰ سے ۳۰ لاکھ کے درمیان ہے لیکن ہماری معلومات کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ اتنی گہرایؑ سے ان باتوں کا تجزیہ کیا جائے گا اور پاکستان کی بنگالی برادری کے ممبران (بزرگ، بڑوں اور بچوں) کے مسائل اور مصلحات ریکارڈ کئے جائیں گے۔
۲۰۲۱ میں بنگلادیش کی تشکیل کو پچاس سال ہونے جا رہے ہیں اور اس موقع پر چند سوالات تقسیمِ شناخت پراجیکٹ کے تحت اٹھائے جا رہے ہیں:
پاکستان میں بنگالی مہاجرین تاریخی اور ثقافتی طور پر کیسے نمائندہ کیے گئے ہیں؟ –
۔ اس قسم کی سماجی نمائندگی اور شہری حقوق سے محرومیت کا بنگالی برادری کی پہچان پر کیا اثر ہوا ہے؟
۔ شہری حقوق اور وصائل اختیار کرنے کے لئے پاکستانی بنگالیوں نے کس قسم کی جدوجہد کی ہے؟
۴۔ بنگالی برادری میں جوان نسلیں اپنے خاندان کے پس منظر اورحالیہ زندگی کو کیسے سمجھتے ہیں اور اس کے زریعے پاکستان میں اپنی زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟
موجودہ وقت تک اس گروہ کا پاکستان میں ہجرت کرنے کا اور آباد ہونے کا ریکارڈ باقاعدگی سے نہیں لکھا گیا۔ اس کہانی کو وضع کرنے سے عالمی سطح پر بھی اقلیتوں کے مسائل کی افہام و تفہیم میں اضافہ ہو گا۔
اس پروجیکٹ میں بین السطعی نقطہ نظر اختیار کیا گیا ہے ، جس میں معاشرتی نفسیات، تاریخی اور آرٹس میں تحقیقی کام کرنے کے طریقہ کار استعمال کئے جائیں گے۔ ہمپاکستانی بنگالی سے متعلق شائع شدہ دستاویزی ذرائع کو تلاش کریں گے ، اور پاکستانی بنگالی آبادی کے مختلف نمونوں سے نئے زبانی تاریخ کے انٹرویوز کا ایک آرکائو(archive) بنائیں گے۔
اس پراجیکٹ میں حصے دار ینیورسٹیاں مندرجہ زیل ہیں؛ ینیورسٹی کالج لنڈن(UCL) ,لاہور ینیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(LUMS)، اور دیگر ادارے یعنی: پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(PILER) اور سٹیزنز آرکائو پاکستان (CAP)۔ زیادہ تر پروجیکٹ کی ذمہ داری UCL کے پاس رہے گی۔ یہ پروجیکٹ آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز ریسرچ کونسل اور گلوبل چیلینجز ریسرچ فنڈ کی مالی معاونت کے تحت ہو رہا ہے۔
پروجیکٹ دسمبر ۲۰۲۰ سے لے کر نومبر ۲۰۲۳ تک چلے گا۔ اس میں تحقیقی کام تین مراحل میں کیا جائے گا۔
طریقہ کار
پہلا مرحلہ: پاکستانی بنگالیوں کہ متعلق دستاویزات کا تجزی: ہم سرکاری، غیر سرکاری اور میڈیا وسائل میں تاریخی وصائل کو ڈھونڈ کر پاکستانی بنگالی برادری پہ موجودہ علم اکٹھا کریں گے۔
دوسرا مرحلہ: انٹرویو کہ ذریعے زبانی تاریخ اکٹھی کرنا اور archival elicitation کا استعمال: یہ مرحلہ CAP کے ساتھ کام کر کے مکمل کیا جائے گا۔ CAP زبانی تاریخ کے انٹرویو ریکارڈنگ کو محفوزکر کے اپنے پاس رکھ لیں گے۔
ہم برادری کے بالغ افراد کے ساتھ کراچی میں زبانی تاریخ کے انٹرویو لیں گے۔ جو ممبران انٹرویو ہوں گے ان کی عمر، سماجی حیثیت اور سیاسی سرگرمیوں کی سطح ساری مختلف ہو گی۔ ہم کمیونٹی کے نوجوانوں (جن کی عمر۱۳ سے ۱۸ سال ہے) کے انٹرویو لیں گ۔ ہم اپنے شرکاء کے ساتھ archival elicitationکا جدید طریقہ استعمال کریں گے۔ کچھ انٹرویو محمدی “مچھر" کالونی میں ہوں گے ، جس میں بنگالی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ، ہم انہی نوجوانوں کے ساتھ کراچی میں تین آرٹ اور میوزک ورکشاپس کا ایک سلسلہ بھی چلائیں گے۔
تیسرے مرحلے میں آرٹس پر مبنی ریسرچ اینڈ ڈاکومینٹری:
: آرٹسٹ عرفان حسن اور نیشنل کالج آف آرٹس کی مشترکہ قیادت میں وہ نوجوان جن کو پہلے اور دوسرے مرحلے میں استعمال کیا گیا ہے انہیں فنکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ ورکشاپس میں شامل کیا جائے گا۔ جو پہہلے مرحلے کے نتائج کو استعمال کریں گے اورپاکستانی بنگالی برادری کے بارے میں نئی آرٹ ورک اور موسیقی تخلیق کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایوارڈ یافتہ فلم ساز جواد شریف کے ساتھ ہم پاکستانی بنگالی برادری کی کہانی پر مبنی ایک فلم بھی بنائے گے